اسلام میں ملازمت اور ملازم کے حقوق



via pinterest



اسلام میں ملازمت اور ملازم کے حقوق

ء

مترجم : أبو دانیال اعظمی بُرَیر


مؤلف : علی اکبر مظاهری


محرر : علی سعیدی


★★★★★★★★★★★★


کار و حقوق کارگر در اسلام

فہرست مطالب


١. خلاصہ

٢. مقدمہ

۱- بیان مسئلہ

۲- محنت و مشقت کا وقار

٣. مشاغل سے مربوط اوقات کی تقسیم

٤. مکاسب محرمہ

٥. اجیر ہونے کی شرعی حیثیت

٦. اجارہ کی شرعی دلیل

۱- قرآن سے دلیل

۲- سنت سے دلیل

۳- اجماع سے دلیل

٧. حرام مشاغل میں ملازمت کی حرمت

٨. اجرت مثل لینا

الف: قاعدہ فقہ: ضمانت

ب: قاعدہ فقہ: احترام

٩. اسلام میں سرپرست پر ملازم کی اخلاقی ذمہ داری

۱- پہلے ہی سے مزدوری معین کرنا

۲- کام انجام دینے کے بعد فوراً مزدوری دینا

۳- اسلام میں بیگاری (بلا اجرت) پر کام لینے کی ممانعت

۴- مزدور کی استطاعت کے مطابق کام دینا

۵- ملازم کو دینی فرائض سے منع نہ کرنا

١٠. مزدور کی اخلاقی ذمہ داری

۱- تجربہ کار اور لازمی مہارت کا ہونا

۲- کام میں دقیق نظر اور احسن طریقہ سے انجام کو پہونچانا

۳- کام میں امانتدار ہونا

١١. مالک کے دستور کے مطابق عمل کرنا

١٢. نقصان کی صورت میں تاوان وصول کرنا (اجیر کی ضمانت)

١٣. کاریگر کی مزدوری غصب کرنا حرام ہے

١٤. مزدور یا ملازم کے حقوق

۱- آزادی کا حق (غلام ہرگز نہیں)

۲- اوقات کے تعین کا حق

۳- اجرت کے تعین کا حق

۴- آرام کرنے کا حق

۵- اجرت کے مطالبہ کا حق

۶- اجارہ کے معاہدہ و قرارداد کو فسخ کرنے کا حق

۷- فرائض دینی انجام دینے کا حق

۸- ضعیفی میں معیشت کی ضمانت کا حق

١٥. حاصل بحث

١٦. منابع و مصادر کتب



پیش گفتار

"دین اسلام مسلمانوں کی دنیا و آخرت کو آباد کرنے کیلئے انہیں محنت و مزدوری کی جد و جہد اور کوشش کی تشویق کرتا ہے، اسلام کی نظر میں حلال رزق و روزی کی طلب کو بہترین عبادت و عمل قرار دیا ہے، دین اسلام میں اسی مشغلہ کو بہترین قرار دیا ہے جو معاشرہ اور افراد کیلئے عزت و وقار کا سبب قرار پاتا ہے."


خلاصه


دین اسلام مسلمانوں کی دنیا و آخرت کو آباد کرنے کیلئے انہیں محنت و مزدوری کی جد و جہد اور کوشش کی تشویق کرتا ہے، اسلام کی نظر میں حلال رزق و روزی کی طلب کو بہترین عبادت و عمل قرار دیا ہے، دین اسلام میں اسی مشغلہ کو بہترین قرار دیا ہے جو معاشرہ اور افراد کیلئے عزت و وقار کا باعث ہوتا ہے، شارع مقدس اسلام نے فساد انگیز بعض حرفت و صنعت کو مشغلہ قرار دینے سے منع کیا ہے کیونکہ یہی ممنوع شغل شخصیت کے اخلاق پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، اسلام میں کسی بھی شخص کا کسی امر یا کام کیلئے استخدام یعنی ملازمت پر رکھنا جائز ہے. ایک مسلمان فرد شرعی طور پر ممنوع حرفت و صنعت میں ملازم و کاریگر نہیں ہو سکتا، ملازم اپنے کام اور مالک کی بنسبت وظائف رکھتا ہے کہ جنہیں اسے احسن طریقہ سے انجام دینا چاہئے نیز مالک (کارفرما) پر اپنے ملازم کی بنسبت کچھ وظائف رکھا ہے جن کی اسے مراعات کرنا چاہئے، ملازم و کاریگر کی مزدوری غصب کرنا شرعی طور پر گناہ کبیرہ ہے، اس مضمون میں ہم نے شغل کی اہمیت اور کاریگر کے حقوق کو اسلام کے شرعی نکتہ نظر سے مختصرا تحقیق و تجزیہ کیا ہے.


مقدمه


۱- بیان مسئله:


انسان اس عالَم ہستی کا ایک گلدستہ ہے خداوند تمام چیزوں کو انسان کی خاطر پیدا کیا ہے پھر اس زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان کی تمام چیزوں کو انسان کیلئے مسخر کر دیا ہے

«وَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِی السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا» (سورہ جاثیه: 13)

انسان زندہ رہنے اور حیات کو برقرار رکھنے کی خاطر کھانے اور پینے، لباس و مکان کا محتاج ہے لہذا اپنی ابتدائی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے اسے فعالیت و کوشش نیز جد و جہد میں مشغول رہنا چاہئے اور اسے بیکار بیٹھنا نہیں چاہئے.

سوال یہ ہے کہ دین اسلام ایک مکمل دین ہے اور شریعت کو تمام قرار دیا ہے تو اسی مقدس شریعت نے کار و بار زندگی میں مشغول رہنے نیز اپنی حلال رزق و روزی کی تلاش میں رہنے کی سفارشیں بھی بیان فرمائی ہے.

اسی طرح اقتصادی امور میں کام کرنے والا جو اہمترین دولت حاصل کرتا ہے اس سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کے مطابق کیا حقوق حاصل ہیں اور کیا قدر و منزلت رکھتا ہے.؟

(مالک کی اہمترین اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملازم کے حقوق کی رعایت کرے، موجود دور میں مزدوروں کے حقوق کے سلسلہ میں بہت زیادہ بحث و مباحثہ کلی طور پر ان کے حقوق پر ہو رہے ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان کے حقوق پر نظر رکھنے کیلئے ادارہ کو بھی وجود میں لایا گیا ہے.

اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کیلئے مذکورہ ذیل کتاب کا مطالعہ کیجئے: (سپهری، محمد رضا، "حقوق بنیادین کار" تهران، مؤسسه کار و تأمین اجتماعی، 1388 ش)

صنعت و حرفت کے اخلاق کی تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے مربوط افراد کے حقوق کی رعایت کو مزدور کے حقوق کی بحث صنعت و حرفت کے اہمترین مسائل میں شمار ہوتا ہے. نہ فقط مالک بلکہ غیر سرکاری اور حکومت کے کندھوں پر بھی ذمہ داری و پابندی بنتی ہے کہ وہ لوگ محنت کشوں کے (NGOs) عوامی ادارے یعنی حقوق کی رعایت کریں یا پھر اس پر نظر رکھنے کے پابند بنے نیز آجکل تقریبا دو سو معاہدات و قراردادیں بین الاقوامی ادارہ کی حمایت میں محنت کش افراد کی حمایت میں تحریریں موجود ہیں. (محمد رضا سپهری و همکاران، مقاوله نامه های بین المللی کار، 1919-2004، تهران، سازمان بین المللی کار، 1383. [محرر])

یہ مضمون مذکورہ دو سوالوں کے جواب کی تلاش و جستجو کیلئے لکھا جا رہا ہے.


٢- محنت و مشقت کا وقار:


فعالیت اور جد و جہد مال و ثروت کے حصول کا اہمترین ذریعہ ہے اور بیکاری فقر و غربت کی بنیادی عنصر ہے. دین اسلام تو یہی چاہتا ہے کہ تمام مسلمان غنی و ثروتمند ہوں لہذا اسلام میں ایک طرف تو جد و جہد اور کوشش کو ایک گرانبہا و عظيم حیثیت سے پہچنواتا ہے بلکہ اسے عبادت کے عنوان سے بھی شدت کے ساتھ ستائش و تحسین قرار دیا ہے، تو دوسری طرف ہر قسم کی سستی و بیکاری اور کاہلی نیز دیگر افراد پر اپنے اخراجات کو پورے طور پر ڈالنے کے ساتھ مقابلہ کیا ہے.


★ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام (ص) اور دیگر ائمہ طاہرین (ع) کی ہزاروں روایات احادیث کی کتابوں مذکور ہیں جیسے جوامع احادیث الشیعہ میں نقل ہوئی ہیں:


۱- «قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ (ص): اَلعِبَادَةُ سَبعُونَ جُزءً أَفضَلُھَا طَلَبُ الحَلَالِ»

پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے: خدا کی عبادت کے ستر حصے ہوتے ہیں کہ ان میں سے افضل حلال روزی کا طلب کرنا ہے. (فروع الکافی، 5/ 78، تهران، دار الکتب الاسلامیه، 1391 ق)


٢- «قال رسول الله (ص): مَلعُونُُ، مَلعُونُُ مَن أَلقیٰ کُلّهُ عَلیٰ النَّاسِ»

رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: ملعون ہے، قابل لعنت ہے جو اپنے سارے خرچ کا بوجھ لوگوں پر ڈالے گا. (فروع الکافی، 4/ 12، تهران، دار الکتب الاسلامیه، 1391 ھ)


٣- عَن إبنِ عَبَّاسِ أَنّهُ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ (ص ) إِذَا نَظَرَ إِلیٰ الرَّجُلِ فَأَعجَبَهُ قَالَ: لَهُ حِرفَةُُ؟ فَإِن قَالُوا: لَا. قَالَ: سَقَطَ مِن عَینِی، قِیلَ: وَ کَیفَ ذَاکَ یَا رَسُولُ اللّٰهِ؟ قَالَ: «لِأَنَّ المُؤمِنَ إِذَا لَم یَکُن لَهُ حِرفَةُُ یُعِیشُ بِدِینَهُ»

ابن عباس نے کہا ہے کہ سیرت رسولخدا (ص) یہی ہوتی تھی کہ جب کسی شخص پر نظر پڑتی تھی اور آنحضرت (ص) کو دلچسپی ہوتی تھی تو فرماتے تھے: کیا وہ صاحب حرفت ہے؟ اگر لوگ کہتے کہ نہیں، تب آنحضرت فرماتے تھے: میری نظر میں وہ گر گیا ہے. لوگ عرض کرتے تھے: اے اللہ کے رسول (ص) ایسا کیوں ہے.؟ تو آنحضرت (ص) فرماتے تھے: جس وقت کوئی مومن صنعت و حرفت نہیں رکھے گا تو اپنے ہی دین کو اپنی معیشت کا وسیلہ قرار دے گا. (نوری، حسین، مستدرک الوسائل، 11/ 13، بیروت، مؤسسة آل البیت، 1408 ھ)


۴- روی أنس بن مالک: إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ (ص ) لَمَّا أَقبَلَ مِن غُزوُةِ تَبُوک إِستَقبَلهُ سَعدُ الأَنصَارِی فَصَافَحَهُ النَّبِیَّ (ص) ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ھٰذَا الَّذِّی أکنب یَدَیکَ؟ قَالَ: «یَا رَسُولَ اللّٰهِ إِضرَاب بِالمّر وَ المَسَحَات فَأَنفَقَهُ عَلیٰ عَیَالِی فَقَبَّلَ یَدَهُ رَسُولَ اللّٰهِ (ص) وَ قَالَ: ھٰذِهِ یَدَا لَا تَمَسُّھَا النَّارِ»

انس بن مالک نے روایت کیا ہے کہ جس وقت رسولخدا (ص) جنگ تبوک سے واپس ہوئے تو سعد انصاری کے استقبال کو آگے بڑھے پس آنحضرت (ص) نے ان سے مصافحہ کیا اور ان کے ہاتھوں کی جلد کو کچھ سخت پایا، تب آنجناب نے فرمایا: کیا تمہارے ہاتھ میں کوئی تکلیف پہونچی ہے.؟ سعد نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے اہل و عیال کیلئے رسی کے ذریعہ پانی کھنیچا ہے اور بیلچہ سے زمین پر کام کر کے مخارج بندوبست کرتا رہتا تھا. پیغمبر اسلام (ص) نے سعد کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہوئے فرمایا: یہ ہاتھ وہی ہے جو جہنم کی آگ میں نہیں پہونچے گا. (ابن اثير، عزّ الدین، اسد الغابة فی معرفة الصحابه، 7/ 342، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1415 ھ)


۵- «قال الكاظم (ع): إن الله عز و جّل يبغض العبد النوّام الفارغ»

أمام كاظم (ع) فرمایا ہے: بیشک خداوند عالم اس شخص سے بغض و دشمنی رکھتا ہے جو بیکار میں ہی فارغ ہو کر بہت زیادہ سوتا رہتا ہے. (فروع کافی 5/ 84)


۶- «قال الصادق (ع): ان الله تبارك و تعالى لَیُحبُّ الإغتراب فى طلب الرزق»

امام صادق (ع ) نے فرمایا ہے: بتحقیق خداوند متعال غریب الوطنی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہوئے طلب رزق کو محبوب رکھتا ہے. (صدوق، فقه من لا یحضره الفقیه، تصحیح علی اکبر غفاری، 3/ 156، قم، نشر جامعه مدرسین، 1404 ق)

پیغمبر اکرم (ص) بعثت سے قبل ایک مختصر عرصہ میں اپنے ذریعہ معاش کے طور پر مکہ کے لوگوں کی بھیڑ بکریوں کو بیابان و صحرا میں چراتے تھے جس سے انہیں چند قیراط (ايک گرام کا پانچواں حصہ) دینار ملتے تھے. (بخاری، محمد، الجامع الصحیح، 2/ 130، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1400 ق)

پھر ایک مدت کیلئے حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س) کے تجارتی مال کی خرید و فروخت میں مشغول رہے. (سبحانی، فروغ ابدیت، 1/ 190 قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1376)

پھر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد امیر المومنین (ع) اپنے ذریعہ معاش کے طور پر مدینہ کے لوگوں کے نخلستان میں اونٹ کی مدد سے سیچائی کیا کرتے تھے. (سبحانی، فروغ ولایت، 82 قم، مؤسسه امام صادق (ع) 1380)


مشاغل سے مربوط اوقات کی تقسیم


ہر چند کہ دین اسلام نے لوگوں کو کام کاج، روزی روزگار، تلاش و جستجو اور اپنی دنیا کو آباد کرنے کی بہت زیادہ سفارش کی ہے چونکہ دین اسلام ایک معتدل دین ہے لہذا اس نے افراط و تفریط کو اس سلسلہ میں باطل قرار دیا ہے اور مسلمانوں سے تاکید فرمایا ہے کہ اپنے دن و رات کے اوقات کو مختلف امور کیلئے تقسیم کریں جیسا کہ امام موسی کاظم (ع) نے فرمایا ہے:

«إجتھدوا أن یكون في زمانكم أربع ساعات: ساعة لمناجات الله وساعة لأمر المعاش وساعة لمعاشرة الإخوان والثقات الذین یُعرِفّونكم عیوبكم ویخلصون لكم فى الباطن وساعة تخلون فیھا للذّاتكم فى غیر محّرم وبھٰذه الساعة تقدرون على الثلاث ساعات»

کوشش کرو کہ تم اپنے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم رہیں: ایک وقت اللہ کے ساتھ مناجات کیلئے معین کرو اور ایک وقت اپنے ذریعہ معاش کی خاطر بناؤ اور ایک وقت اپنے برادران اور بھروسہ مند افراد جو تمہارے عیبوں کو مخلصانہ طور پر تم سے بیان کرنے والوں کے ساتھ معاشرت کیلئے مخصوص قرار دو اور ایک وقت اپنی خلوت میں غیر حرام یعنی حلال لذات حاصل کرنے کی خاطر معین کرو اور اسی آخری ساعت کے وسیلہ سے بقیہ تین وطائف بالا کی ادائیگی پر طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے. (حرّانی، تحف العقول، ص 433، تهران، کتابفروشی اسلامیه، 1400 ق)

اسی خداوند حکیم نے رات کو آرام و آسائش کا وسیلہ قرار دیا ہے:


★ جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سے پتہ چلتا ہے:

«ھُوَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ اللَّیْلَ لِتَسْكُنُواْ فِیهِ» (سورہ یونس 67)

وہی خدا ہے کہ جس نے رات کو تمہاری خاطر پیدا کیا تا کہ تم اس وقت آرام و سکون حاصل کو سکو.

اسی بنا پر چونکہ شب کو آرام کیلئے ہی قرار دیا ہے تو بہتر ہے کہ انسان اس میں آرام کرے اور کاموں میں مشغول نہ رہے اور رات میں کام کاج کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے.


★ اس سلسلہ میں امام صادق (ع) نے پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت کو نقل کیا ہے:

«انّه کان یکره ان یصرم باللیل و ان تحصد الزرع باللیل»

بتحقیق پیغمبر خدا (ص) رات میں خرما جمع کرنے (چننے) اور غلہ کی بالیوں سے دانہ نکالنے کو ناپسند فرماتے تھے. (طباطبائی، محمد حسین، سنن النبی، ص 75. بیروت، مؤسسه البلاغ، 1415 ھ)


★ پھر اسی سے مربوط دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے:

«نھی رسول الله (ص) عن جذاذ اللیل و حصاد اللیل»

رسولخدا (ص) نے رات میں زراعت کی فصلوں کو جمع کرنے اور بالیوں میں سے دانہ نکالنے سے منع فرمایا ہے. (کنز العّمال، 15/ 540، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1409 ق)


★ اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) نے مزید فرمایا ہے:

«لا سھر إلا فی ثلاث: متھجد بالقرآن أو فی طلب العلم أو عروس تھُدی إلی زوجھا»

شب بیداری مناسب نہیں ہے سوائے تین امور کی خاطر: قرآن مجید کہ تلاوت کرنے یا تعلیم کے حصول کیلئے یا عروس کا اپنے شوہر کی خاطر جاگنے کیلئے. (خصال صدوق، ج 88، تهران، انتشارات علمیه اسلامیه)


اسلام کی نظر میں اقتصادی امور کیلئے سعی و کوشش اور جد و جہد کرنے پر اطلاق ہوتا ہے کہ اسی کے مقابل میں مال اور پیسہ کو قرار دیا جاتا ہے. فقہائے اسلام نے ایک مشہور و معروف قانون "مسلم کے عمل کا محترم ہونے" کو اسی بنیاد پر یہی معنی قرار دیا ہے اور اس سے مراد یہی ہے:

«عَمَلُ المُسلِمِ مُحتَرَمُُ» 

يعني مسلمان کے عمل کی ضمانت و قیمت ہوا کرتی ہے اور فقہا نے فقہ کے مختلف ابواب میں کسی محنت کش یا مزدور کے کام کو مفت ميں و بغیر اجرت نہیں ہونے پر بطور دلیل پیش کیا ہے. (قرشي، العمل و حقوق العامل فی الإسلام، ص 120، نجف، مطبعه الآداب، بی تاريخ)


حرام پیشے اور مشاغل


اسلام میں شارع مقدس نے ہر چند اپنے پیروکاروں کو محنت و مشقت اور مال کے حصول و کسب درآمد کی طرف شوق دلاتا ہے لیکن یہی دین اسلام بعض مشاغل کو اپنانے سے بھی منع کرتا ہے چونکہ اس میں فتنه و فساد اور نقصان رکھا ہوا ہے جنہیں فقہ کی اصطلاحی زبان میں «مَکَاسِب مُحَرِّمَه» کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.

اس بارے میں پیغمبر اکرم (ع) نے فرمایا ہے:


«إنّ أخوف ما أخاف علی أمّتی من بعدی ھٰذه المکاسب الحرام» (فیض کاشانی، محجة البیضاء، 3/ 206، قم، مؤسسه النشر الإسلامی)

میرے بعد خوفناکترین چیز میری امت پر یہی ہے کہ حرام مکاسب میں مشغول ہونے کا خوف ہے.

(عظیم محقق مرحوم شیخ انصاري نے اپنی کتاب «المکاسب المحّرمة» میں تفصیل کے ساتھ 43 کی تعداد میں حرام مکاسب (پیشے یا شغل یا آمدنی) کے بارے میں بحث کیا ہے.)

امام خمینی (رہ) نے اپنی کتاب «تحریر الوسیله» میں متعدد حرام مشاغل کے ناموں کا تذکرہ کیا ہے.

جنہیں ہم ذيل میں تحریر کر رہے ہیں:


١- نجاسات کی خريد و فروخت کرنا. (انسان یا غیر ماکول اللحم حیوانات کا پیشاب پیخانہ، منی، خون، مردار، سور، کتا، سیال نشہ، «آب جو» آور چیزیں اور فقاع

٢- شراب کی خرید و فروخت کرنا.

٣- انگور اور خرما کو شراب بنانے کیلئے خرید و فروخت کرنا.

۴- آلات لہو و قمار کا بنانا نیز خرید و فروخت کرنا.

۵- آلات لہو و قمار نیز صلیب و بت بنانے کیلئے لکڑی کی خرید و فروخت کرنا.

۶- شراب کی خرید و فروخت اور حرام کاموں کے انجام دینے کیلئے مکانوں کو اجارہ پر دینا.

٧- مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں دشمنان دین کے ہاتھوں اسلحہ فروخت کرنا.

٨- انسان اور حیوانات کی مجسمہ سازی کرنا.

٩- مجالس لہو و لعب کی شکل میں غنا اور آواز خوانی کرنا.

١٠- ظالمین و ستمگاروں کے ساتھ تعاون کرنا.

١١- مسلمین کے عقائد کی مخالفت اور نقصان پہونچانے کی خاطر کتابوں کی نشر و اشاعت نیز خرید و فروخت کرنا. (کتب ضلال یعنی گمراہ کرنے والی کتابیں)

١٢- جادو گري، شعبدہ بازی، کہانت (فال گیري، قیافہ شناسی، علم نجوم کی اجرت لینا. (ستاروں کی چال سے طالع بینی كے امور انجام دینا)

١٣- خرید و فروخت میں فریبکاری اور ملاوٹ کرنا نیز دھوکہ دھڑی کرنا.

١۴- جو امور تعبدی ہیں چاہے وہ واجبات عینی ہوں یا کفائی ان امور کے انجام دینے پر اجرت لینا. (امام خمینی، تحریر الوسیله، 1/ 493 تا 500، قم، مؤسسه دار العلم، بی تاريخ)


★ اجیر ہونے کی شرعی حیثیت ★


آمدنی کے حصول کا ایک طریقہ دوسروں کیلئے اجیر ہونا یعنی اجرت پر کام کرنا ہے. بالفاظ دیگر کسی کام کے انجام کے دینے کی خاطر مستخدم ہونا یعنی خدمت کرنا ہے اور فقہا نے اسے «الإجارة أحد معایش العباد» قاعدہ یا قانون کا نام دیا ہے. (بجنوردی، القواعد الفقهیه، تحقیق مهدی مهریزی و محمد حسن درایتی، قم، نشر دلیل ما، 1424 ق، ف 7/ 56)

یہ ایک کلی قاعده و قانون ہے جو مختلف مصادیق پر منطبق ہوتا ہے، اجارہ کی ماہیت، منفعت معلوم کی تملیک (ملکیت میں قرار دینا) عوض (متبادل) معلوم کے مقابل میں ہوتی ہے.


اجارہ کی شرعی دلیل مندرجہ ذیل ہے:


١- قرآن سے دلیل:


«نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُم مَّعِیشَتَھُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُھُم بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ» (سوره زخرف 32)

ہم لوگوں کے درمیان دنیا کی زندگی میں معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ہم نے برتری و فوقیت بخشی ہے تا کہ ایک دوسرے سے کام لیں اور تیرے پروردگار کی رحمت بہتر ہے جو کچھ تم ذخیرہ اندوزی کرو گے.

امیر المومنین (ع) نے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں ذیل کی باتیں بیان فرمائی ہیں:

خداوند نے اس آیت کے مطابق ہمیں خبر دی ہے کہ اجارہ (مزدوری یا کرایہ پر معین) کرنا مخلوق کی معائش میں سے ایک امر ہے کیونکہ اسی نے اپنی حکمت کے ذریعہ ہمتوں اور ارادوں نیز لوگوں کے دیگر حالات کو پیدا فرمایا ہے اور اس تفریق و اختلاف کو لوگوں کی زندگی بسر کرنے کی بنیاد قرار دیا ہے. اسی بنا پر ہر ایک انسان دوسرے فرد کی خاطر کسی کام کو انجام دینے کو ملازم یا مستخدم بنا سکتا ہے. (حر عاملی، وسائل الشیعه، تحقیق عبد الرحیم ربانی شیرازی، ص 1/ 244، تهران، مکتبه الاسلامیه، 1403 ھ)


٢- سنّت سے دلیل:


امیر المؤمنین (ع) بھی خود ہی ایک یہودی شخص کے اجارہ میں رہ کر اس کے باغ کی سیچائی کیا کرتے تھے اور پانی کی ہر ایک ڈول یا بالٹی کے مقابل میں ایک عدد کجھور بطور مزدوری لیتے تھے پس اس کے بعد انہی کجھوروں کو لے کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے. (ابن فهد، احمد، المهذَّب البارع، 3/ 18، تحقیق مجتبی عراقی، قم، مؤسسه نشر اسلامی، بیتا)

اسی طرح اجارہ کے جائز ہونے کے بارے میں بھی بہت سی روایات حضرات ائمہ طاہرین (ع) سے نقل ہوئی ہیں کہ ہم آئندہ کی بحث میں بعض حصوں کی طرف اشارہ کریں گے.


٣- اجماع سے دلیل:


تمام ہی مسلمان اجارہ کی مشروعیت پر اتفاق نظر رکھتے ہیں.

اسلامی عقود (عہد و پیمان اور قرار داد مراد ہیں) میں سے ایک عقد اجارہ بھی ہے جو مذکورہ آیت کے مطابق ہے.

«یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ» (سوره مائده 1)

اے ایمان لانے والو! عقود (عہد و پیمان) كو وفا کرو.

ہر ایک صاحب ایمان پر اس کا وفا کرنا واجب ہے. ہماری مراد اس اجارہ سے یہاں پر ایک انسان کو اجارہ (مزدوری کا حصول) اور اس کے کام کی قوت و طاقت کو لینا ہے نہ کہ منقول اور غیر منقول اموال کو اجارہ پر لینا مقصد ہے.


★ اجیر ہونا:


فقه میں کوئی شخص کسی دوسرے کو مزدوری کی رقم کے مقابل میں ایک ملازم کے طور پر خدمات حاصل کرتا ہے اور یہ مفہوم لفظ (کارگر) کام کرنے والے سے عموم ہے جو جمہوری اسلامی ایران کے قانون اساسی کی اصطلاح میں بیان ہوا ہے اس کے علاوہ ہے.


اجیر:


وہ شخص ہے کہ جو اپنے خاص عہد و پیمان کے ساتھ اپنے کام کی قوت کو دوسرے کے اختیار میں قرار دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں اجرت کی خاطر کسی بھی طرح کے کام کو انجام دیتا ہے. یہی کام عموما صنعت یا تجارت یا حرفت یا مستری یا خدمات انجام دینا نیز دیگر امور سے مربوط ہوتے ہیں. اور تمام ہی امور کیلئے اجرت لینا کہ جس سے اسلامی معاشرہ کو پائداری اور دوام سے وابستہ کرنا ہے تو تمام فقہائے اسلام کی نظر میں متفقہ طور پر جائز ہے. (بجنوردی، القوائد الفقیه، 2/ 174)

نيز ان ہی امور کو فقہا کی اصطلاح میں «واجبات نظامیه» کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے.


اسی سلسلہ میں امام رضا (ع) نے فرمایا ہے:

«إعلم یرحمك الله إنّ كلّ ما یتعلّمه العباد من أصناف الصنائع مثل الكتاب والحساب والتجارة والنجوم والطبّ وسائر الصناعات والأبنية والھندسة والتصاوير ما لیس فیه مثال الروحانيين وأبواب صنوف الآلات التى یحتاج إلیھا ممّا فیه منافع وقوام المعایش وطلب الكسب فحلال كلّه تعليمه والعمل به وأخذ الأجرة عليه و ان قد تصرف بھا فی وجوه المعاصی أیضاً»

تم جان لو کہ اللہ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں! جو کچھ بھی بندگان خدا اپنے صنائع کے اصناف میں سے انجام دیتے ہیں: جیسے پڑھنا لکھنا، علم ریاضی، تجارت، علم نجوم، طب، مختلف صنعتیں، عمارت سازی، علوم مہندسی اور غیر ذی روح کی تصاویر سازی اور وہ آلات و اوزار جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے نیز دیگر صنائع و حرفت کہ جن کا انسانی زندگی میں بنیادی ضرورت ہے اسی کو یاد کرنا یا سیکھنا اور انہیں انجام دینا اور ان کی مزدوری لینا بھی حلال ہے اگرچہ بعض اوقات انہی علوم کا استعمال ایک اعتبار سے حرام میں بھی ہوتا ہے. (جامع احادیث الشیعه فی احکام الشریعه، 10/ 19، قم، مطبعه علمیه، 1399 ھ)

انہی روایت کے آخری حصہ کا ٹکڑا ملاحظہ کیجئے:

«وإن قد تصر بھا فی وجوه العاصی»

معاملات کا غیر مشروع طریقہ سے بھی استعمال سے ربط پایا جاتا ہے. ایسی خرید و فروخت کی حرمت و عدم حرمت کی بحث ملاحظہ کیجئے: «معاملات با جهت گیری نامشروع» موسوی، غلام رضا [محرر]


★ حرام پيشوں میں ملازمت کی حرمت


اجارہ کے صحیح ہونے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہی ہے کہ اجارہ کی منفعت کا مباح ہونا ہے، اگر کوئی شخص حرام مشاغل کے انجام دینے کیلئے اجیر ہوتا ہے تو ایسا معاملہ شرعی طور پر باطل ہے اور اس کی اجرت لینا بھی حرام ہے اور اجیر شخص بھی اس اجرت کا مالک قرار نہیں پاتا نیز ایسے مال سے کھانا بھی باطل ہے.


امام صادق (ع) نے ایک طولانی روایت کے ذیل میں حرام اجارہ کی اقسام کے بارے میں فرمایا ہے:

«فامّا وجوه الحرام من وجوه الإجارة نظیر أن یؤاجر نفسه على ما یحرم علیه أكلة أو شربة أو لبسة أو یؤاجر نفسه فی صنعة ذٰلک الشیء أو حفظه أو لبسه أو یؤاجر فی ھدام المساجد ضراراً أو قتل النفس بغیر حلّ او حمل التصاویر والأصنام والمزامير والبرابط والخمر والخنازير والميتة والدم أو شیء من وجوه الفساد الّذی کان محّرماً علیه من غیر جھة الإجارة فیه و کل أمر منھی عنه من جھة من الجھات فمحّرم على الإنسان إجارة نفسه فیه أوله إلّا لمنفعة من استأجرته کالذّی يستأجر الأجير یحمل له الميتة ینجیھا عن أذاه أو أذی غیره و ما أشبه ذٰلک»

لیکن حرام اجارہ کی رقم كو ایسے شخص کا اجیر ہو كہ جس کے حمل کیلئے اسے کھانا یا پینا یا پہننا حرام ہے یا کسی حرام چیز کو بنانے یا اس کی حفاظت کیلئے خود کو اجیر کرے یا کسی مسجد ضرار کو توڑنے کی خاطر یا کسی نفس محترمہ کو ناحق قتل کرنا یا بتوں، مزامیر، طنبورا، شراب، سور، مردار، خون یا کسی مفسد چیز کی رقم کے جس جو غیر مناسب طور پر انسان کیلئے حرام ہے پر خود کو اجیر کرے پس ہر وہ چیز جو شرعاً انسان کیلئے ممنوع ہے تو حرام ہے کہ انسان خود کو اس کیلئے اور ان امور کی خاطر جو ان سے مربوط ہیں اجیر کرے. سوائے اس امر میں جس کا فائدہ عام لوگوں کے ساتھ ہی اجیر کو بھی پہونچتا ہے جیسے مردار کو بستی سے جنگل و بیابان کی طرف لے کر جانا اس کے مالک اور دیگران سے دور تا کہ اس مردار کی بدبو سے لوگوں کو نجات دے. (تحف العقول، ص 350)


اسی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے کام کے قانون کے مادہ ٩ کے بند الف میں صراحت کے ساتھ قرار داد کی مشروعیت کے سلسلہ ایک شرط عہد و پیمان کے صحیح ہونے کو مشروط قرار دیا ہے.


اجرت مثل لینا


«أخذ أجرة المثل» عقد اجارہ کے بطلان کے وقت اجاره کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہی ہے کہ اجرت معین و معلوم ہے اور اس معنی میں فقہا کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں پایا جاتا. (بحرانی، الحدائق الناظرة فی أحکام العترة الطاهرة، 2/ 547 قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1409 ھ)

جس وقت بھی عقد اجاره باطل ہو اور منفعت بھی استیفا (پوری) ہوئی ہو تو اجرت مثل لے گا اگرچہ «أجرة المسّمی» کم از کم اجرت سے زیادہ ہو اور اجیر کا حق نیز کاریگر کا حق دو دلیلوں سے ضائع نہیں ہوتا.


١- قاعدہ فقہ؛ ضمانت


«کُلُّ مَا یضمنُ بِصَحِیحِه یضمنُ بِفَاسِدِه»

ہر عقد و قرار داد کہ جس کا صحیح ہونا ضمانت آور ہوتا ہے تو اس کا فاسد و باطل ہونا بھی ضمانت آور ہی ہوتا ہے.


۲- قاعدہ فقہ؛ احترام


«عَمَلُ المُسلِمِ مُحتَرِمُُ»

ایک مسلمان کا عمل محترم ہوتا ہے.

اجیر شخص نے چونکہ کام بغیر مزدوری و بلا اجرت انجام نہیں دیا ہے بلکہ اس نے اجرت کے مد مقابل انجام دیا ہے. تب ہی تو وہ مزدور اجرت مثل کا مستحق قرار پائے گا کیونکہ اس کا عمل محترم ہے. (نجفی، جواهر الکلام 27/ 246  بیروت، دار احیاء التراث، بی تاريخ و بجنوردی، القواعد الفقهية، تحقيق مهدي مهريزي و محمد حسن درايتي، 7/ 113، قم، نشر دليل ما، 1424 ھ)


★ اسلام میں سرپرست و مالک کی اخلاقی ذمه داری


دین اسلام کی نظر میں جو کسی شخص کو کوئی کام انجام دینے کیلئے استخدام (کسی کو خدمت کیلئے حاصل) کرنا پڑتا ہے تو اس پر چند وظائف معین کئے گئے ہیں.

جن میں سے ہم بعض کو ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:


۱- پہلے ہی سے مزدوری معین کرنا:


اس بارے میں دینی رہنماؤں نے بہت زیادہ تاکید کیا ہے جن میں سے چند احادیث ملاحظہ کیجئے:

١- «نَھیٰ النَّبِیُّ (ص) أن یستعمل أجیر حَتّیٰ یعلم ما أُجرته»

پیغمبر اسلام (ص) نے کسی بھی کاریگر کی مزدوری معلوم کرنے سے پہلے کام دینے سے منع فرمایا ہے. (من لا یحضره الفقیه، 4/ 10)


٢- قال الصادق (ع): «من كان یؤمن بالله و الیوم الآخر فلا یستعملّن اجیراً حتی یعلّمه ما اجره»

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے: جو شخص بھی خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو کاریگر کو کام نہیں دینا چاہئے مگر یہ کہ پہلے اس کی مزدوری کا اعلان کر دے. (الكافي،  5/ 289)


سلیمان بن جعفر جعفری سے مروی ہے: امام رضا (ع) نے کسی کو اجرت پر رکھو تو اس کی اجرت معلوم نہیں ہونے کے بارے میں فرمایا ہے:

«واعلم انّه ما من احد یعمل لک شیئاً بغیر مقاطعة ثم زدته لذلک الشیع ثلاثة أضعاف على أجرته إلّا ظنّ انّک قد نقصته أجرته و إذا قاطعته ثم أعطيته أجرته حمدک على الوفاء فإن زدته حبّه عرف ذلک  و رأی إنّک قد زدته»

اور تم جان لو کہ جس نے بھی اس کے کام کی اجرت معین کئے بغیر کام لیا پھر اسے تین گنا مزدوری دیدیں گے تب بھی وہ مزدور گمان کرے گا کہ اسے مزدوری کم دی گئی ہے. لیکن اگر اس کی مزدوری معین کرو اور پھر اسے تم ادا کرو گے تو وہ تمہاری وفا داري کی تعریف کرے گا اور اگر ایک حبہ بھی اس معین اجرت میں اضافہ کرو گے تو وہ یہی جانے گا کہ یہ اضافہ آپ کی طرف سے ہے اور یہ بھی سمجھے گا کہ تم نے عہد و پیمان کے مطابق معین اجرت سے بھی بہت زیادہ اجرت ادا کیا ہے. (پس وہ آپ کا احسان تسلیم کرے گا.) (الکافی، 5/ 288)


٢- کام انجام دینے کے بعد فوراً مزدوری دینا


اس سلسلہ میں بھی بہت ساری روایات موجود ہیں جن میں سے ہم چند کا تذکرہ ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے:


١- «قال النبی (ص): اعط الأجير أجرته قبل أن یجفّ عرقه»

پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے ایک صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی اس کی مزدوری دیدو. (ابن فهد، أحمد، 3/ 18)


٢- عن أبي عبد الله (ع ): «فی الحمال و الأجیر قال: لا یجفّ عرقه حتی تعطیه اجرته»

امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب میں سے کسی ایک حمال اور اجیر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مزدور کے پسینہ کو خشک ہونے سے پہلے ہی ادا کر دیں. (الکافي، 5/ 289)


٣- عن شعیب قال: «تکارینا لابی عبد الله (ع) قوماً یعملون فی بستان له و کان اجلھم الی العصر فلما فرغوا قال لمعتب: اعطھم اجورھم قبل ان یجفّ عرقھم

شعیب سے مروی ہے: میں نے امام صادق (ع) کے گھر میں کام کرانے کیلئے ایک گروہ کو معین کیا تا کہ وہ لوگ عصر تک کام کریں جب وہ لوگ کام سے فارغ ہوئے تو امام (ع) نے معتب سے فرمایا: ان کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ہی انہیں اجر ادا کرو. (الکافي، 5/ 289)


٣- اسلام میں بیگاری لینے کی ممانعت


کار فرما (یعنی مالک يا سرپرست یا سیٹھ) کا کارگر (یعنی کاریگر يا مزدور یا ملازم) سے بغیر مزدوری یا اجرت یا تنخواہ کے فائدہ اٹھانا (یعنی ملازمت پر رکھنا یا کام کرانا) مکمل طور پر شرعاً صحیح نہیں ہے اور اسی سلسلہ میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے: 


١- «لا سخرۃ علی المسلم یعنی الأجیر»

مسلمان سے بیگاری كرانا جائز نہیں ہے یعنی بلا اجرت و مزدری کسی بھی مسلمان سے کام کرانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے. (الکافی 5/ 283)


٢- کان امیر المومنین (ع) یکتب إلی عمّاله لا تسخروا المسلمین

اسی طرح امام صادق (ع) نے فرمایا ہے: امیر المؤمنین (ع) نے اپنے کار گزارروں (يعني حکومت کے عہدہ داروں) کو تحریر فرمایا: مسلمانوں سے بیگاری مت لیا کرو. (الکافي، 5/ 284)

چونکہ اسلام میں ایک مسلمان کا بھی عمل قابل صد احترام ہے تو یہی چاہئے کہ اس کے عمل یا فعل کے مقابلہ میں مناسب معین اجرت یا مزدوری مکمل طور پر ادا کرے.


۳- «یا أیّھا الناس من انتقص أجیراً أجره فلیتبّواً مقعده من النار»

اسی کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے: اے لوگو! جو شخص بھی کسی کاریگر کی مزدوری کم ادا کرے گا پس اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے. (بحار الانوار، 40/ 60 بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403 ق)


٤- مزدور كي طاقت كے مطابق ہی كام دينا


کام کے مالک کو مزدور کی طاقت و قدرت سے بھی زیادہ کام کو اس کے کندھے پر نہیں لادنا چاہئے.

جیسا کہ خداوند متعال نے قرآن مجيد مين ارشاد فرمايا ہے:

«لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَھَا» (سورہ بقرہ ۲۳۳)


دوسرے مقام پر قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

« لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَھَا » (سورہ بقرہ 286)

اللہ کسی کو بھی اس کی طاقت و قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا.

اسی طرح سے کسی دوسرے پر اس کی طاقت کی حد سے بھی زیادہ تکلیف لادنا دوسروں کے حقوق سے تجاوز کرنے کے مصداق ہے.


جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: «وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِینَ» (سورہ بقره 190)

اور حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ اللہ حد سے بڑھ جانے والوں سے محبت نہیں کرتا.


مزید یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بھی ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ہے: «لا یکلّف من العمل الّا ما یطیق»

کوئی بھی اپنے ماتحت کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی کام پر تکلیف نہیں دے گا. (نهج الفصاحه "مجموعه کلمات قصار حضرت رسول اکرم (ص)" ص 481، تهران، سازمان چاپ و انتشارات جاویدان، چاپ ششم، بغیر تاریخ)


ادھر امام سجّاد (ع) نے "رسالة الحقوق" میں غلام و مملوک کے بارے میں فرمایا ہے: «و لا تکلّفه ما لا یطیق»

غلام کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف مت پہونچاؤ. (تحف العقول، ص 268)


اسی بنا پر جبکہ «تکلیف ما لا یطاق» اس کی طاقت و قوت سے زیادہ تکلیف دینا ماتحت اور غلام پر جائز نہیں ہے تو بدرجہ اولی اس کی طاقت و استطاعت سے تکلیف دینا بھی آزاد مزدور و ملازم یا کاریگر پر بھی ہرگز جائز نہیں ہے.


٥- ملازم كو ديني فرائض سے منع نہ كرنا


سرپرست اپنے کاریگر کے عبادی اعمال (نماز و روزہ وغیرہ) بجا لانے سے منع نہیں کرے گا.

اسی سلسلہ میں امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:


١- «من إستأجر اجیراً ثم حبسه عن الجمعة تبوء بإثمه وإن كان ھو لم یحبسه إشتری فی الأجر»

جو شخص بھی کسی مزدور کو اجرت پر حاصل کرے پھر اسے نماز جمعہ میں شرکت سے باز رکھے تو اس اجیر کا گناہ بھی سرپرست يا مالک کے ذمہ ہی ہوگا اور اگر منع نہ کرے گا تو دونوں ہی افراد ثواب میں شریک ہوں گے. (الكافي 5/ 289)

اگر اجرت پر لینے والا مالک يا سرپرست اجارہ کی قرار داد میں یہ شرط کرے کہ کاریگر نماز نہیں پڑھے گا اور روزہ بھی نہیں رکھے گا تو یہ شرط رکھنا باطل ہے کیونکہ یہ شرط قرآن مجید کے حكم كے خلاف ہے اور ہر وہ شرط جو قرآن کریم کے حكم كے خلاف ہوگي تو باطل ہے.

چونکہ امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:


٢- «من إشترط شرطا مخالفاً لكتاب الله فلا يجوز و لا يجوز على الذى إشترط علیه و المسلمون عند شروطھم فیما وافق کتاب الله عزّ و جلّ»

جو کوئی کسی سے کتاب خدا کے خلاف شرط کرے تو وہ شرط جائز نہیں اور اس شرط پر عمل کرنا بھی شرعی اعتبار سے صحیح نہیں ہے نیز مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کتاب خدا کے موافق شرطوں پر ہی عمل کرے. (الکافی، 5/ 169)


نيز امیر المؤمنین (ع) نے فرمایا ہے:

٣- «لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق»

مخلوق کیلئے کوئی بھی اطاعت و فرمانبرداری اللہ کی معصیت و نافرمانی میں جائز نہیں ہے. (نهج البلاغه، حكمت 169، ترجمه استاد علامه جعفری، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، 1380)

اسی بنا پر جمہوری اسلامی ایران کے "قانون کار" کے مادہ ١۵٠ کے میں ذکر ملتا ہے: تمام ہی سرپست حضرات يا مالکین اس قانون کے ماتحت مکلف ہیں کہ وہ اپنے کارخانہ یا فکٹری میں ایک مناسب جگہ فریضہ نماز کی ادائیگی کیلئے قرار ديں اور ماہ مبارک رمضان کے ایام میں بھی مذہبی شعائر کی تعظیم کی خاطر اور روزہ داروں کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے کام کے شرائط و اوقات کو اداره "انجمن اسلامی" اور "شورائے اسلامی کار" یا تمام "نمائندگان قانونی کارگران" کے تعاون سے اس طرح منظم کریں کہ کام کے اوقات روزہ کے فریضہ میں مانع نہیں ہونا چاہئے، اسی طرح کام کے اوقات میں سے ایک وقت کو نماز و افطار یا سحری کے فریضہ کی ادائیگی کی خاطر مخصوص قرار دینا چاہئے.


مزدور کی اخلاقی ذمه داری


جو کوئی بھی کسی کام کو انجام دینے کیلئے خدمت پر مقرر ہوتا ہے تو شرعی طور پر اسے اپنے مالک اور کام کی بنسبت یہی وظیفہ رکھتا ہے جسے ہم ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:


١- تجربه کار و لازمي طور پر ماہر ہونا:


ایک کاریگر جو اپنے کام کو انجام ديتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کام کی بنسبت صاحب علم اور لازمی مہارت رکھنے والا ہو. ورنہ ممکن ہے کہ عدم مہارت و بغیر تجربہ کے نقصان و گھاٹے کا سبب قرار پائے گا.

اسی کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:


۱- «مَن عَمِلَ عَلیٰ غَیرِ عِلمٍ کَانَ مَا یفسد أَکثَر مِمَّا یصلح»

کوئی شخص بغیر اطلاع کے کسی کام کو انجام دے گا تو اس کا فساد اس کی اصلاح سے زیادہ ہی رہے گا. (الکافی، 1/ 55)

اسی طرح امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:


٢- «کُلُّ ذِی صَنَاعَةِ مُضطَّر إِلىٰ ثَلَاثِ خِلَال یَجتلب بِھَا المَكسَب وَ ھُوَ أَن یَكُونَ حَاذِقاً بِعَمَلِهِ مَؤَدّیاً لِلأَمَانَةِ فِیهِ مَستَمیِلاً لِمَن إستَعملهُ»

ہر صاحب صنعت و حرفت اپنی پیشرفت و ترقي کیلئے تین خصلتوں کا محتاج ہوتا ہے:

١- مزدور اپنے کام میں ماہر ہو. 

٢- مزدور اپنے کام میں امانتداری کی رعایت کرے.

۳- مزدور اپنے سرپرست يا مالک کا منظور نظر ہو. (تحف العقول، ص 336)


٢- کام میں دقت نظر و حسن انجام ركھنا:


ملازم پر وظیفہ یہی ہے کہ جس کام کی ذمہ داری اپنے کندھے پر لی ہے جو کچھ بھی توجہ اور استحکام کے ساتھ بطور احسن انجام دے سکتا اور اسے اس ذمہ داری مین بے تجہی اور سستی و کاہلی سے کام نہیں لینا چاہئے.

لہذا شارع مقدس (ع) نے لوگوں کو اپنے امور میں استحکام رکھنے کی سفارش کی ہے.

مثلاً پیغمبر اکرم (ص) فرمایا ہے:


١- «انّ الله تعالی یحبّ إذا أعمل أحدکم عملاً أن یتقنه»

بیشک خداوند متعال محبت کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا عمل یا فعل انجام دے جو مستحکم اور پائدار ہوتا ہے. (کنز العمال 3/ 907)

پیغمبر اکرم (ص) نے مزید فرمایا:


٢- «إن الله تعالى یحبّ من العامل إذا العمل أن يحسن»

بتحقیق خداوند متعال اس شخص سے محبت کرتا ہے جو اعمال میں سے کسی ایک عمل یعنی کام انجام دیتا ہے نیز اسے بہترین انداز میں قرار دیتا ہے. (متقی هندی، علاء الدین، 3/ 907)

پھر سے آنحضرت (ص) نے فرمایا ہے:


٣- «إذا أعمل أحدکم عملاً فلیتقن»

تم میں سے كوئي ایک شخص جب كسي عمل كو یعنی کام انجام دیتا ہے پس اسے استوار و مضبوط بھی قرار دینا چاہئے. (حر عاملی، 2/ 883)


٣- مزدوري میں بھی امانتدار ہونا:


کوئی بھی مزدور شرعی طور پر مکلف ہے کہ اپنے کام يا ذمہ داری کو مکمل اور صحیح طریقہ سے انجام دے اور کسی بھی طرح کی خیانت پیشہ یا شغل میں نہ کرے اور اپنے شغل و پیشہ میں امین بھی ہو.

اس سے قبل امام صادق (ع) کا قول نقل کرچکے ہیں جس میں فرمایا ہے:

۱- «مؤدّیاً للأمانة فیه»

ہر صاحب حرفت و صنعت یہی تین ہیں کہ اپنے کام میں ۳ خصلتوں کا محتاج ہوتا ہے ان ۳ خصلتوں میں سے ایک اہمترین خصلت امانتداری کی رعایت کرنا بھی ہے.

مزید یہ کہ امیر المؤمنین (ع) نے بھی فرمایا ہے:


۲- «إن الله عزّ و جّل یحبّ المحترف الأمین»

خداوند تبارک و تعالی امانتدار صاحب فن و حرفت کو محبوب رکھتا ہے. (الکافی، 5/ 112)

پیشہ يا شغل يا مزدوري میں دهوكہ دھڑی فریبکاری اور خیانت شرعاً حرام ہے کیونکہ ایسا کرنے والا اسلام و ایمان سے خارج ہو جاتا ہے.

اسی سلسلہ میں پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا ہے:

«لیس منّا من غشّ مسلماً و لیس منّا خان مؤمناً»

جو کسی مسلمان سے دھوکا دھڑی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو کسی مومن سے خیانت کرے وہ (بھی) ہم میں سے نہیں ہے. (حر عاملی، 13/ 226)

صنعت و حرفت اور شغل و پیشہ میں امانتداری کے مختلف ابعاد یعنی پہلو و دائرے ہیں اور اس مفاہیم کا تجزیہ کے بارے میں تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو مذکورہ ذیل کا مطالعہ کیجئے: فرامرز قراملکی، احد، «امانتداری و ابعاد آن در حرفه» [محرر] جو کہ انٹر نیٹ پر دستیاب بھی ہے.


«قال رسول الله (ص): «من کان مسلما فلا یمکر و لایخدع فإنی سمعت جبرئیل یقول إن المکر و الخدیعه فی النار ثم قال ليس منا من غش مسلما وليس منا من خان مسلما».

رسولخدا (ص) فرماتے ہیں: «ہر مسلمان شخص کو مکر و فریب نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ میں نے جبرئیل سے سنا ہے کہ بیان کر رہے تھے: بیشک مکر و فریب کا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں ہی ہے. پھر کہا: وہ ہم میں سے نہیں ہے جو مسلمان کے سا فریبکاری کرے اور وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے جو مومن سے خیانت کرے»


مالک کے دستور کے مطابق عمل کرنا:


چونکہ مزدور یا ملازم یا خادم اقرار یا عہد یا قراداد کے ذریعہ اپنے آپ کو پابند کر لیتا ہے کہ مالک کیلئے کچھ امور انجام دے گا جو اسے مالک یا سرپرست کے احکامات کے مطابق ہی کام کو کس طریقہ سے انجام دینا ہے اسی کا عہد و پیمان کر کے اپنے ذمہ لیا ہے تو اس کی فرمان برداری اسی پیمان و عہد اور دستورات کے دائرہ میں عمل کرتا رہے:

جس کیلئے اللہ تعالی کا قول عموم پر دلیل ہونا قرآن میں مذکور ہے:

«یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ» (سورہ مائده 1) 

اے صاحبان ایمان! اپنے عقود (عہد و پیمان) میں وفا داری ثابت کرو یعنی پورا کرو.

اسی بنا پر جو کچھ ذکر ہوا خود مزدور کے وظائف میں سے یہی ہے کہ وہ بھی احسن انداز میں اسے انجام دینا چاہئے تا کہ سرپرست یا مالک کا حق ضائع نہ ہو سکے.

اسی بحث میں مزید دیگر اخلاقی ذمہ داریوں کا بھی ہم اضافہ کر سکتے ہیں.

جس کی مکمل معلومات کیلئے مذکورہ ذیل کتاب کی طرف رجوع کیجئے. (فرامرز قراملکی، احد، «سازمانهای اخلاقی در کسب و کار» از ص 251 تا ص 260، تهران، ناشر مجنون، چاپ دوم، 1381)

مذکورہ بالا مطالب كو تفصیل كے ساتھ اس کے مقام پر ذکر کئے گئے ہیں. [محرر]


اجیر کی ضمانت


مالی خساره کی شکل میں تاوان و جرمانہ ادا کرنا

اگر اجیر یا مزدور جس کے ما تحت مال یا شئے موجود یا قبضہ میں ہے اور مالک یا سرپرست کو نقصان پہونچے گا تو صاحب مال اس سے تاوان یا بدل لے سکتا ہے.

اس سلسلہ میں مزید تفصیلی معلومات چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل مضمون کا مطالعہ کیجئے: (رضوی سید محمد، «از ید امانی تا ید ضمانی» اسی رسالہ میں ملاحظہ کیجئے) [محرر]

اسی سلسلہ میں چند روایات ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:

امام صادق (ع) ایک شخص کے جواب میں فرماتے ہیں:


۱- عن ابی عبد الله (ع) فی الرجل یعطی الثوب لیصبغه فیفسده. فقال: «کل عامل أعطیته أجراً علی أن یصلح فأفسد فھو ضامن»

امام صادق (ع) سے ایک شخص سے متعلق پوچھا کہ جسے ایک لباس دیا گیا تا کہ اسے رنگے پس وہ خراب ہو گیا؟ آنحضرت (ع) نے فرمایا: ہر مزدور تم مزدوری اسی لئے دیتے ہو تا کہ وہ کام کو بہترین انداز میں انجام دے پس وہی مزدور اس کے فاسد و خراب ہونے کا بھی ضامن ہوتا ہے. (حر عاملی، 13/ 275)

مزيد ايک روایت میں امام صادق (ع) سائل کے جواب میں فرماتے ہیں:


۲- عن أبى الصباح قال: سألت أبا عبد الله (ع) من القصّار ھل علیه ضمان؟ فقال: «نعم كلّ من یعطى الأجر لیصلح فیفسد فھو ضامن»

امام صادق (ع) سے ابو صباح روایت نقل کرتے ہیں: میں نے امام سے سوال کیا کہ کپڑے دھونے کے بارے میں کیا وہ اس کپڑے کا ضامن ہو گا.؟ تو امام (ع) نے فرمایا: جی ہاں! جو شخص بھی مزدوری ليتا ہے کسی امر کي اصلاح کی خاطر لیکن وہ اسے خراب کرے گا تو ضامن بھی ہوگا. (حر عاملی، 13/ 274)


قاعدہ إتلاف


اس بارے میں یہ آخری روایت بھی ملاحظہ کیجئے جو مزدور یا ملازم یا خادم کے ضامن ہونے پر دلالت کرتی ہے:


٣- «مَن أَتلَفَ مَال غَیرهُ فَھُوَ لَهُ ضَامِنُ»

جس نے بھی کسی غیر کا مال تلف کیا پس وہی تلف کرنے والا اس کا ضامن بھی ہوگا. (بجنوردی، 7/ .154)

اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات قاعدہ اتلاف کے عمومي ہونے کو مزدور یا ملازم یا خادم کے ضامن ہونے پر دلالت کرتی ہے.


مزدوری غصب کرنا یا نہ دینا حرام ہے


شارع اسلام نے پیشہ و شغل یعنی صنعت و حرفت نیز مزدور و ملازم کو محترم شمار کیا ہے نیز انہیں مزدوری نہ دینے سے شدت کے ساتھ باز رکھا ہے بلکہ اس پر جہنم کا ٹھکانہ بھی قرار دیا

اسی سلسلہ میں ہم چند روایات درج ذیل کر رہے ہیں:


۱- مزدوری نہ دینا گناہ کبیرہ ہے:


قال رسول الله (ص): «ظلم الأجير أجره من الکبائر»

رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: مزدور پر یہ ظلم ہے کہ اسے اجرت سے محروم کرنا ہی گناہ کبیرہ میں سے ہے. (بروجردی، 19/ 21)


٢- مزدوری غصب کرنا ناقابل معافی گناہ ہے: 


قال رسول الله (ص): «إن الله تعالى غافر كل ذنب الّا من احدث دیناً او إغتصب أجیراً أجره أو باع رجلاً حرّاَ»

رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: خداوند متعال ہر ایک گناہ کی مغفرت کرنے والا ہے سوائے ان تین گناہوں کے جو ذيل ميں بیان کئے جا رہے ہیں:

١. وہ شخص جو نیا دین بناتا ہے. 

٢. وہ شخص جو مزدور کی مزدوری غصب کرتا ہے. 

۳. وہ شخص جو آزاد انسان کو بیچتا ہے. (حر عاملی، 13/ 275)


٣- مزدور پر ظلم حبط اعمال و محرومیت خوشبو


مزدوري پر ظلم كرنا يعني اعمال كا برباد کرانا اور جنت کی خوشبو بھی حرام ہوجاتی ہے:

قال رسول الله (ص): «من ظلم أجیراً أجرته أحبطه الله عمله و حرّم الله علیه ریح الجنة و إنّ ریحھا لیوجد من مسیرة خمسمأة عام»

رسولخدا (ع) نے فرمایا ہے: جو بھی کسی اجیر یعنی کاریگر پر اس کی مزدوری کے سبب ظلم کرے گا تو خداوند عالم اس کے عمل کو حبط کر دے گا اور اس پر جنت کی خشبو حرام قرار دے گا جس کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلہ سے بھی سونگھی جا سکتی ہے. (صدوق، 4/ 112)


۴- مزدوری کی عدم ادائیگی اور رسول سے دشمنی


مزدوری ادا کرنے میں عہد و پیمان کی مخالفت کرنا نیز استطاعت سے زیادہ کام لینا قیامت کے روز رسولخدا (ص) سے دشمنی کرنا ہے:

قال رسول الله (ص): «ثلاثة انا خصمھم یوم القیامة: رجل باع حرّاً فأکل ثامنه و رجل إستأجر أجیراً فاستوفی منه و لم یوفه أجره و رجل أعطانی صفقته ثمّ غدر»

رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: میں قیامت میں تین افراد سے مخاصمت و دشمنی رکھوں گا:

١- وہ شخص جو آزاد انسانوں کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے.

۲- وہ شخص جو مزدور کو اجرت پر خدمت کیلئے حاصل کرے اور اس کی طاقت سے زیادہ منافع بھی کمائے پس اسے مزدوری ادا کرنے میں قول و قرار کی پاپندی نہ کرے. 

۳- وہ شخص جو مجھ سے عہد و پیمان کرے اور پھر غداری یعنی فریبکاری کرے. (ابن فهد، 3/ 18)


۵- مزدوری دینے سے منع کرنا پلیدترین گناہ ہے:


قال الصادق (ع): «أقذر الذنوب ثلاثة: قتل البھیمة و حبس مھر المرأة و منع الأجير أجره»

امام صادق (ع ) نے فرمایا ہے: پلیدترین گناہ تین ہیں:

١- حیوانات کو (بلا وجہ) قتل کرنا.

۲- زوجہ کو مہر ادا نہ کرنا.

۳- مزدور یا ملازم یا خادم کی مزدوری یا تنخواہ یا محنتانہ ادا نہ کرنا. (مکارم الاخلاق، ص 237 بیروت، مؤسسه الاعلمی، 1392 ق)

مذکورہ احادیث ان مطالب پر دلیل و حجت ہے کہ کاریگر کی مزدوری غصب کرنا حرام ہے اور اسے ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ میں سے ہے مزید گناہوں کا تذکرہ ہم پہلے ہی بیان کرتے ہوئے ثابت کر چکے ہیں اور اسلام نے تو یہ بھی حکم دیا ہے کہ بہترین یہی ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی دیدي جائے.


ملازم یا نوکر یا خادم کے حقوق


اسلام میں مزدور کو جو حقوق حاصل ہیں ان میں سے بعض كا تذكره ہم نے سابق میں بیان کیا اور اب ہم دیگر چند باتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں. (شریف القرشی در کتاب «العمل و حقوق العامل فی الاسلام» کے صفحہ نمبر 280 پر رقم کیا ہے جن ميں بعض مزدور کے حقوق کو بیان کیا ہے. ہر مسلمان مزدور چونکہ ایک خود مختار و آزاد انسان ہے وہ بھی دیگر سب ہی مسلمانوں کی طرح بھی تمام سماجی و معاشرتی اور شہری حقوق شریعت اسلامی کے دائرہ میں رہتے ہوئے اسے حاصل ہوتے ہیں.

جن کا تذکرہ ہم اختصار سے ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:


١. آزادی کا حق:


کسی شخص کیلئے شرعاً یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مزدور کو کوئی کام انجام دینے کی خاطر مجبور کرے کیونکہ وہ حُر اور آزاد ہے.

جیسا کہ روایت میں تذکرہ کیا گیا ہے:

«إنّ الحرّ لا یقع تحت سلطنة أحد لا یمكن أن یكون لأحدٍ ید علیه»

کوئی بھی آزاد شخص کسی بھی فرد کے چنگل یا قبضہ میں نہیں ہے اور کوئی بھی اس پر تصرف نہیں رکھ سکتا ہے. (بجنوردی، حسن، 7/ 59)

ہر کاریگر اپنے شغل و پیشہ کو انتخاب کرنے میں آزاد ہے البتہ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ مزدور ان مشاغل کو اختیار نہیں کر سکتا جو شرعاً حرام ہیں اور پھر ان کی مزدوری لینا بھی حرام ہے.

اسی بنا پر اصل ۴٣ کے بند چہارم اور اصل ٢٨ قانون اساسی میں اور جمہوری اسلامی ایران کے قانون کا مادہ ششم میں ذکر کیا ہے کہ افراد کو مجبور کرنا کسی معین کام پر ممنوع ہے اور ہر کوئی حق رکھتا ہے کہ وہ کسی بھی پیشہ و شغل کو جس کی طرف وہ مائل ہے اختیار کرے اور جو شغل و پیشہ اسلام کے مخالف یا عمومی مصلحت کے خلاف یا دوسروں کے حقوق سے متصادم نہ ہوتا ہو. یعنی مذکورہ قید و شرط کے ساتھ ہر ایک پیشے و مشاغل کو اختیار کر سکتا ہے جو جائز و حلال ہیں اور جو حرام و ناجائز ہیں انہیں ہی ترک کرے گا.

کاریگر شرعی طور پر مجاز ہے کہ وہ ہر حقیقی یا حقوقی ذات و شخصیت کی خاطر جس کی بھی طرف میلان رکھتا ہے کام کرے اور مزدوری بھی حاصل کرے.

کاریگر کو شرعاً یہ بھی حق حاصل ہے کہ اپنے کام کاج کرنے کی جگہ و مقام کو منتخب کرے اور اسے کسی بھی معین جگہ پر کام کرنے کیلئے مجبور نہیں ہے.


٢. کام کے اوقات کے متعیّن کرنے کا حق:


مزدور اپنے کام کے اوقات کو خود ہی معین کر سکتا ہے لیکن اسے شرعی طور پر یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی طاقت و قوت سے بہت زیادہ کام کرے کیونکہ اتفاقاً کام کی کثرت اس کی ہلاکت و موت کا سبب بھی ہو سکتی ہے.

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:


«وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیكُمْ إِلَى التَّھْلُكَةِ» (سورہ بقره 195)

خود کو اپنے ہی ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو.


٣. اجرت کے تعین کا حق:


مزدور کو یہ حق حاصل ہے کہ کام کے سرپرست یا مالک کے ساتھ مزدوری کی مقدار معین کرنے کے بارے میں گفتگو کرے. [مناسب، منصفانہ و زندگی کی کفایت بھر مزدوری حاصل کرنا ایک مزدور کا بنیادی حق ہے.] (محرر)


٤. آرام کرنے کا حق:


اسلام نے مزدور کو سکون و آرام کا حق دیا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے ایک صحابی کو جو ہمیشہ نماز و روزہ میں مشغول رہا کرتے تھے کے سلسلہ میں فرمایا:

«أفطر ونُم فَإِنّ لجسدک عَلَیکَ حَقّاً وإنّ لعینک حقّاً» (صحیح بخاری، 2/ .152)

افطار کرو اور سویا (بھی) کرو کیونکہ تمہارے جسم کے اعضا و جوارح پر حق ہے اور بیشک تمہاری آنکھ پر (بھی) حق ہے.


پھر آنحضرت (ص) نے دوسری حدیث میں بھی فرمایا ہے:

«روّحوا القُلُوبُ ساعةً بَعدَ سَاعَةٍ»

دلوں کو ساعت بساعت راحت و آرام پہونچاؤ.

اسی بنا پر ایک مزدور کے جسم کو کام سے فارغ ہونے کے بعد آرام و سکون کی ضرورت پرتی ہے. (متقی هندی، 2/ 37 و إبن عبد البر، جامع بيان العلم 1/ 434، طبع دار ابن الجوزي و أخرجه مسلم 2750، كتاب التوبة باب فضل دوام الذكر و نووي المنهاج 9/ 70)


٥. اجرت کے مطالبہ کا حق:


کاریگر یا مزدور یا ملازم یا خادم كو کام انجام دینے کے بعد یہ حق پہونچتا ہے کہ وہ اپنی مزدوری یا تنخواہ یا محنتانہ کا مطالبہ کرے اور سرپرست یا مالک یا سیٹھ پر واجب ہے کہ فوراً سے پیشتر بغیر معطل ہوئے اس کی رقم يا مزدوري ادا کر دے. [کچھ سرپرست یا مالکين موقعہ پر ہی مزدوری دینے میں حیلہ و بہانہ بازی سے کام لیتے ہیں یا تاخیر سے ادا کرنے تک اس سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ ذمہ دار و ضامن بھی رہیں گے.] (محرر)


٦. اجاره کے معاہده کو فسخ کرنے کا حق:


اگر مزدور معاہدہ کے ضمن میں اس کی شرط کو فسخ کرے گا کہ جسے علم فقہ کی اصطلاح میں "خیار شرط" کہتے ہیں تو وہ اجارہ کی قرار داد کو توڑ بھی سکتا ہے اور اسی طرح سے اگر اجارہ کا معاہدہ مزدور کیلئے نقصان کا باعث ہو تو "خیار غبن" کا حق استعمال کرتے ہوئے اس اجارہ کی قرار داد کو فسخ کر سکتا ہے.


٧. دینی فرائض انجام دینے کا حق:


اس سلسلہ میں ہم نے پہلے ہی بیان کر دیا ہے کہ مزدور کو کام کرنے کے اوقات میں نماز و روزہ یعنی اسے اپنی مذہبی عبادت انجام دینے کا حق حاصل ہے اور مالک اسے عبادت کرنے کے حق کی ادائیگی سے منع نہیں کر سکتا.


٨. ضعیفی میں معیشت کی ضمانت


اگر مزدور کام کے صدمات یا پھر عمر کی زیادتی کے سبب کام کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی خاطر ذریعہ معاش مہیا کرے.

جیسا کہ امیر المومنین (ع) کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ کے بازار میں ایک ضعیف شخص کو دیکھا جو لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا.

اسی سلسلہ میں امیر المومنین (ع) سے ایک روایت منقول ہے ملاحظہ کیجئے:


«مرّ شیخ مکفوف کبیر یسأل فقال امیر المؤمنین (ع) ما هذا؟ قالوا یا امیر المؤمنین (ع) نصرانی فقال (ع) إستعملتموه حتى إذا کبر وعجز منعتموه؟ انفقوا علیه من بیت المال»

ایک بوڑھا شخص گزرتے ہوئے لوگوں کے درمیان بھیک مانگ رہا تھا، پس امیر المومنین (ع) نے فرمایا: یہ کیا ہو رہا ہے.؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ نصرانی ہے. پھر امیر المومنین (ع) فرمایا: اس سے کام لیتے رہے ہو یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہو کر عاجز و ناتواں ہو گیا اور اسے ذریعہ معاش سے منع کر رہے ہو. اس کے بعد امیر المومنین (ع) کے دستور کے مطابق بیت المال سے اس کی زندگی کے اخراجات کی رقم معین فرمایا. (وسائل الشیعه، 11/ 49)

یہی تو امیر المومنین (ع ) کا کلام ہے جو مزدور و کاریگر کے بارے میں دین اسلام کا دستور العمل ہے کہ اگر ناتوان و ضعيف ہو گیا تو اس کا زندگی بسر کرنا ساقط ہرگز نہیں ہوتا بلکہ بیت المال سے اس کی مدد ہوا کرے گی. یہ ایک مثال یہ جو دین اسلام کی گہرائی و منطق، فلاح و بہبود کو اجاگر کرتا ہے کہ جسے چودہ سو سال پہلے ہی کاریگر و مزدور، ملازم و خادم، نوکر و کام کرنے والے کے حقوق کو بیان کر دیا گیا ہے.


حاصل بحث


اسلام نے عام مسلمانوں کو محنت و مشقت، مزدوری و ملازمت کی تلاش و جستجو کی طرف ترغیب دلائی ہے اور سستی و بے کاری یا کاہلی و معطلی میں پڑنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے.

اسلام کی نظر میں محنت و مشقت کرنا معاشرہ اور افراد کی خاطر عزت و شرف کا باعث ہے اور حلال روزی طلب کرنا تقرب بارگاہ الہی کا افضل ترین وسیلہ و ذریعہ ہے.

اسلام نے بعض فساد انگیر و فتنہ پرور مشاغل و پیشوں کو اختیار کرنے سے باز رکھا ہے.

دوسروں کیلئے مزدور اور اجیر ہونا شرعی طور پر جائز ہے.

مشقت و محنت کرنے والا طبقہ سماج کے طبقات میں سے بہت ہی انمول حیثیت رکھتا ہے اور اسلام بھی اسی طبقہ کیلئے خاص اہمیت دینے کا قائل ہے اس طریقہ سے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے بذات خود محنت و مشقت کرنے والے ہاتھوں کو بوسہ دیا ہے.

مزدور کی مزدوری غصب کرنے کو گناہ کبیرہ شمار کیا ہے.

کاریگر (مشقت و محنت کرنے والا) اور سرپرست (مالکار) دونوں ہی ایک دوسرے کی بنسبت شرعاً ذمہ داری اور حقوق رکھتے ہیں جن کی دونوں ہی کو پابندی کرنا بہت ضروری و واجب قرار دیا ہے نیز اس کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ بھی ہے. 


تمّت بالخیر به نستعین و ھو خیر المعین


تحقیق کے منابع و مصادر


١. قرآن کریم

٢. ابن اثیر، عزّ الدین، اسد الغابة فى معرفة الصحابة، بیروت، دار الكتب العلمیة، 1415 ق .

٣. ابن فهد، احمد، المهذّب البارع، تحقیق مجتبی عراقی، قم، مؤسسه نشر اسلامی، بیتا .

٤. امام خمینی، تحریر الوسیله، قم، مؤسسه دار العلم - بیتا .

٥. بخاری، محمد، الجامع الصحیح، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1400 ق

٦. بروجردی، محمد حسین، جامع الحدیث الشیعة فی احکام الشریعة، قم، مطبعة علمیه، 1399 ق .

٧. بحرانی، یوسف، الحدائق الناظرة فى احكام العترة الطاهرة، قم، مؤسه نشر اسلامی، 1409 ق .

٨. بجنوردى، حسن، القواعد الفقهیة، تحقیق مهدی مهریزی و محمد حسن درایتی، قم، نشر دلیل ما، 1424 ق .

٩. پاینده، ابو القاسم، نهج الفصاحه، (مجموعه کلمات قصار حضرت رسول اکرم ) تهران، سازمان چاپ و انتشارات

جاویدان، چاپ ششم، بی تا .

١٠. حرانی، حسن، تحفة العقول، تهران، کتابفروشی اسلامیه، 1400 ق .

١١. رضی، سید شریف، نهج البلاغه، (ترجمه استاد علامّه جعفری )، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، 1380 ش .

١٢. سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1376 ش .

١٣. سبحانی، جعفر، فروغ ولایت، قم، مؤسسه امام صادق (ع)، 1380 ش .

١٤. سپهری، محمد رضا و همکاران، مقاوله نامههای بین المللی کار، تهران، سازمان بین المللی کار، . 1383

١٥. صدوق، محمّد، من لا یحضره الفقیه (الفقیه)، تصحیح علی اکبر غفّاری، قسم، نشر جامعه مدّرسین، 1404 ق .

١٦. صدوق، محمّد، الخصال، تهران، انتشارات علمیه اسلامیه، بی تا.

١٧. طباطبائی، محمّد حسین، سنن النبی، بیروت، موسسة البلاغ، 1415 ق .

١٨. طبرسی، حسن، مکارم الاخلاق، بیروت، موسسة الاعلمی، 1392 ق .

١٩. عاملی، محمّد، وسائل الشیعه، تحقیق عبد الرحیم ربّانی شیرازی، تهران، مکتبة الاسلامیه، 1403 ق .

٢٠. فرامرز قراملکی، احد، سازمانهای اخلاقی در کسب و کار، تهران، مجنون، چاپ دوم، . 1386

٢١. فیض کاشانی، المحجة البیضا، قم، مؤسسه الانشر الاسلامی .



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی